Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر14

رخصتی کے بعد ہانیہ عماد کے گھر آگئی تھی۔۔اس کے ساتھ سب کچھ اتنا جلدی ہوا کہ اسے خود سمبھلنے کا موقع تک نہیں ملا۔۔۔اوپر سے شازل کی بے وفائی۔۔اور اسکا سی ایس ایس کرنے کا خواب سب ہی تو ختم ہوگئے۔۔۔کتنی خوش تھی وہ کچھ دن پہلے جب شازل نے اس سے محبت کا اظہار کیا تھا۔۔اور کچھ دن بعد اسکی قسمت کیسے بدل گئی۔۔۔ کیسی ہو۔۔۔؟؟عماد اسکے قریب بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔ اسکی آواز پر ہانیہ چونکی۔۔۔وہ کب کمرے میں آیا اور اس کے قریب آکر بیٹھا ہانیہ کو پتا ہی نہیں چلا۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ہانیہ نے مختصر جواب دیا۔۔۔ کہا کھوئی ہوئی تھی۔۔۔ ہانیہ نے اسکے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔ اچھا ویسے ایک بات تو بتاؤ۔۔۔عماد اسکے ہاتھ کو پکڑ کر بولا۔۔۔ اسکے ہاتھ پکڑنے پر توجیسے ہانیہ کو کرنٹ لگا۔۔۔ایكدم ہانیہ نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچا۔۔ ارے بھی تو تمہارا ہاتھ پکڑا ہے تو تم نے ایسے چھوڑوا لیا ابھی تو میں نے۔۔۔اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتا ہانیہ فوراً بولی۔۔۔ مجھے نیند آرہی ہے۔۔۔ اسکی بات پر عماد مسکرا دیا۔۔۔ نیند تمہیں آرہی ہے مجھے نہیں۔۔ویسے بھی اب تم میری بیوی ہو اور تم وہی کیا کرو گی جو میں کہو گا۔۔۔اور سونے کے بارے میں تو تم بھول ہی جاؤ۔۔۔عماد جس قدر نارمل تھا اسکی آواز میں اتنی ہی سختی تھی جس کو ہانیہ نے محسوس کر لیا تھا۔۔۔اسلیے مزید کچھ کہے بینا خاموشی سے بیٹھ گئی۔۔۔۔ ویسے سچ سچ بتاؤ تمہارے ابو نے اتنی جلدی تمہاری شادی کیوں کی ۔۔۔؟؟کیا تمہارا کسی کے ساتھ چکر تھا جس کی وجہ سے وہ ڈر گئےکہ کہی تم بھگ ہی نہ جاؤ۔۔۔کہتے ہوئے طنزیہ ہنسا۔۔۔۔ ہانیہ نے بے بسی سے اسے دیکھا۔۔۔اور ایک پل میں آنسوؤں نے اسکے رخسار بھیگو دیے تھے۔۔۔آج جو کچھ بھی مجھے سننے کو مل رہا ہے شازل صرف آپ کی وجہ سے میں آپ کو کبھی معاف نہیں کرونگی۔۔۔اور نہ ہی میرا اللہ‎۔۔۔ہانیہ دل میں سوچ کر ره گئی۔۔۔ عماد نے اسکا روتا ہوا چہرہ دیکھا تو فوراً سنجیدگی سے بولا۔۔۔ میں تو مذاق کر رہا تھا۔۔تم تو سیریس ہی ہوگئی۔۔۔ جو کسی کے کردار کی دھجیاں اڑا دے وہ بھلا مذاق ہوتا ہے۔۔۔؟؟پر وہ یہ بات اپنی زبان پر نہ لا سکی۔۔۔کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اب تو ساری زندگی اسی انسان کے ساتھ ہی گزارنی ہے۔۔۔۔اسلیے کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ ہانیہ تم کل ولیمے کے بعد گھر نہیں جاؤ گی۔۔۔۔ لیکن کیوں۔۔۔ہانیہ بینا اسے دیکھے بولی۔۔۔ کیا مطلب کیوں۔۔جب میں نے کہہ دیا ہے کہ تم نہیں جاؤ گی تو نہیں جاؤگی۔۔۔چلو اب اٹھو اور چینج کرو۔۔۔عماد سختی سے بولا۔۔۔ اور ہانیہ فوراً اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔


شادی کو ایک ماہ ہو گیا تھا۔۔۔ہانیہ ایک ہی بار اپنے گھر گئی تھی وہ بھی عماد اس کے ساتھ گیا تھا اور اپنے ساتھ ہی واپس لے آیا تھا۔۔۔۔ عماد میں کچھ دن کے لیے امی کے گھر جانا چاہتی ہوں۔۔۔شادی کے دو دن بعد ہی ساری ذمہ داری ہانیہ پر ہی ڈال دی گئی تھی۔۔۔اس نے ساری زندگی میں اتنا کام نہیں کیا تھا جتنا ایک ماہ میں اسکی ساس نے اسے کروا لیا تھا۔۔ کیوں جانا ہے تمہیں۔۔۔؟؟عماد جو فون میں مصروف تھا ناگواری سے بولا۔۔۔ میرا دل بہت اداس ہے مجھے امی سے ملنا ہے۔۔۔ہانیہ دکھ سے بولی۔۔۔ ساری زندگی تم ان کے ساتھ ہو رہی ہو۔۔۔اب بس۔۔۔ میں نے تمہیں شادی کی رات ہی کہہ دیا تھا تم زیادہ گھر نہیں جاؤگی۔۔۔عماد سپاٹ لہجے میں بولا۔۔۔ پر عماد۔۔۔اس سے پہلے وہ کچھ کہتی عمادفوراً بولا۔۔۔ تمہیں زبان چلانے کی کتنی عادت ہے۔۔۔جب میں کہ چکا ہوں کہ نہیں جانا پھر بحث کرنے کا کیا فائدہ۔۔۔بولو۔۔۔؟؟اب کی بار عماد کی آواز میں پہلے زیادہ سختی تھی۔۔۔ جس پر ہانیہ خاموش ہو گئی۔۔۔ اور تم امی کی بات کیوں نہیں مانتی۔۔۔جب انہوں نے تمہیں چاۓ کا کہا تھا تو کیوں نہیں بنا کر دی۔۔۔ عماد میں نے کہاتھا انھیں کے بنا دیتی ہوں پر وہ کہہ رہی تھی کہ میں خود بنا لونگی۔۔۔میں نےانکار نہیں کیا تھا۔۔۔۔ تو کیا میری ماں اس عمر میں جھوٹ بولیں گی۔۔۔عماد چلایا ۔۔۔ میں نے یہ نہیں کہا۔۔۔ آگئے سے بکواس کر رہی ہو۔۔۔عماد نے ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر دے مارا۔۔۔یہ پہلے تھپڑ تھا جو عماد نے ہانیہ کو مارا تھا۔۔۔تھپڑ اس قدر زور سے لگا تھا کہ ہانیہ کے رخسار پر عماد کا ہاتھ چھپ چکا تھا۔۔۔ آئندہ اگر تم نے میری امی کو جھوٹا کہا یا انکی بات نہ مانی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ھوگا سنا تم نے۔۔۔ ہانیہ اسکی گرج دار آواز سے سہم گئی تھی۔۔۔ اٹھو اور نکل جاؤ میرے کمرے سے۔۔۔ پلیز مجھے کمرے سے تو مت نکالے میں ساری رات باہر کیسے گزارونگی۔۔۔رونے کی وجہ سے ہانیہ کی آواز با مشکل ہی نکلی تھی۔۔۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔۔۔تم چلی جاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔۔۔کہتے ہوئے ہانیہ کا بازو پکڑا اور کمرے سے نکال دیا۔۔۔اور خود آکر آرام سے بیڈ پر آنکھیں موندیں لیٹ گیا۔۔۔یہ سوچے بینا کے وہ ساری رات باہر کیسے کاٹے گی۔۔۔۔


تین سال بعد۔۔۔۔۔ ہانیہ میری شرٹ کہا ہے۔۔۔؟؟عماد چلا رہا تھا۔۔۔اوپر سے ایمان کے رونے پر اسے اور غصہ آرہا تھا۔۔۔ ہانیہ بامشکل چل کر الماری تک آئی۔۔۔اور اسکی شرٹ نکال کر دی۔۔۔۔ کتنی بار کہا ہے آفس جانے سے پہلے میری شرٹ باہر نکل کر رکھا کرو۔۔۔پر تمہیں تو میری بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔۔۔اور تم سے ایک بچی نہیں سمبھالی جاتی۔۔۔کتنا روتی ہے یہ۔۔۔عماد دانت پیس کر بولا۔۔۔ عماد میری طبعیت نہیں ٹھیک۔۔۔میرا آخری مہینہ چل رہا ہے۔۔۔اور ایمان بچی ہے۔۔۔اور بچے ایسے ہی روتے ہیں۔۔۔ بچے ایسے نہیں روتے بچیاں ایسے روتی ہیں۔۔۔کہتے ہوئے کمرے سے چلا گیا۔۔۔ عماد کی خواہش تھی کہ اسکے گھر پہلے بیٹا ہو۔۔۔پر اللہ‎ نے اسے بیٹی عطا کی۔۔۔وہ اس بات پر بلکل خوش نہیں تھا۔۔۔چھ بہنو کا وہ ایک ہی بھائی تھا۔۔۔اور اسے ڈر تھا کہ کہی اسکے باپ کی طرح اسکے گھر بھی بیٹیاں ہی نہ پیدا ہوتی رہے۔۔۔ اسکے جاتے ہی ہانیہ نے ایمان کو سینے سے لگایا جو ابھی دو سال کی تھی۔۔۔ تم ابھی تک یہی ہو۔۔۔میرے لیے ناشتہ نہیں بنانا۔۔۔نائلہ بیگم کمرے میں آتے ہی سپاٹ لہجے میں بولی۔۔۔ امی میں ایمان کو چپ کروا کر آرہی تھی۔۔۔ ارے یہ تو چپ ہی نہیں ہوتی ہر وقت روتی رہتی ہے۔۔۔۔اس کے رونے کی وجہ سے تو میرے سر میں درد شروع ہوجاتا ہے۔۔میری بات کان کھول کر سن لے اگر اس بار بیٹا نہ ہوا تو عماد سے کہو گی تجھے طلاق دےدیے۔۔۔ایسی بیوی کا کیا فائدہ جو بیٹیاں ہی پیدا کرتی پھیرے۔۔۔پہلے ساری جوانی بہنو کی شادی کرتا رہا اور اب بیٹیوں کا جہیز بناتا پھیرے نہ بھئی نہ ہمیں نہیں چاہیے اور بیٹیاں۔۔۔ امی یہ میرے بس میں تو نہیں ہے۔۔۔ہانیہ دکھ سے بولی۔۔۔۔۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتی۔۔۔بس اس بار تو بیٹا ہی ہونہ چاہیے۔۔۔ورنہ اپنا سامنے پیک کرنا شروع کر دے۔۔۔نائلہ بیگم ناگواری سے بولی۔۔۔ امی آپ ایسا مت کہیں۔۔۔آپ جانتی ہیں اب تو امی ابو بھی نہیں رہے۔۔۔میں کہا جاؤنگی۔۔۔ہانیہ تڑپ کر بولی۔۔۔۔ تو ٹھیک ہے پھر دعا کر کے اللہ‎ تجھے اس بار بیٹا ہی دیے۔۔کہتے ہوئے چلی گئیں۔۔۔ اور ہانیہ نے انکے جاتے ہی ہچکیوں سے رونا شروع کر دیا۔۔۔

   0
0 Comments